
لندن میں مقیم پاکستانی قصائی نے شریف خاندان کو گوشت بیچنے سے انکار کردیا ، پوچھنے پر کیا وجہ بتائی ؟ ناقابل یقین واقعہ
ہم عمران خان سے لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس کی ایک خوبی کا اعتراف کرنا ہوگا‘ یہ بیانیے کا ایکسپرٹ ہے‘ یہ بیانیہ بناتا ہے اور پھر اسے اپنی
میڈیا اور سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ہر شخص کی زبان تک پہنچا دیتا ہے اور یہ اس کی واحد سیاسی قوت ہے۔عمران خان نے 2014میں جعلی اسمبلی اور چار حلقوں کا بیانیہ دیا اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹا جب تک اس نے چار حلقوں میں نئے الیکشن نہ کرا لیے‘ پینتیس پنکچر بھی اس کا بیانیہ تھا‘ پاناما لیگ کی ٹرم بھی اس نے متعارف کرائی‘ اقامہ کا لفظ بھی اس نے اٹھایا اور پھر یہ شریف فیملی کے ساتھ جوڑ دیا۔آپ آج بھی گوگل میں اقامہ ٹائپ کریں‘ نواز شریف اور خواجہ آصف کے اقامہ کی خبریں نکل آئیں گی اور یہ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ مولانا ڈیزل کی اصطلاح ہو یا بارش ہوتی ہے کا ٹرینڈ ہو یا پھر بلورانی‘ کانپیں ٹانگ‘ پرچی چیئرمین اور ایفی ڈرین عباسی ہو عمران خان بیانیہ بناتا رہا اور اس کی سوشل میڈیا ٹیم اسے عوام کے ذہنوں تک پہنچاتی رہی‘ آپ آج بھی اس کی ’’کارکردگی‘‘ دیکھ لیں‘ عمران خان نے مراسلے کو خط اور خط کو وارننگ اور اس وارننگ کو سازش بنایا اور عوام اب اس نعرے کو سچ مان رہے ہیں‘ عمران خان پرائم منسٹر کو کرائم منسٹر اور حکومت کو امپورٹڈ گورنمنٹ کہہ رہا ہے اور یہ دونوں لفظ بھی اب ہر شخص کی زبان پر ہیں‘ امپورٹڈ گورنمنٹ کے ٹرینڈ نے پاکستان میں اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور اس ریکارڈ کو پوری ریاستی طاقت بھی نہیں روک پا رہی۔ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا ۔ملک کی باقی تمام سیاسی جماعتوں کے پاس عمران خان کی اس تکنیک کا کوئی توڑ موجود نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کسی حد تک عمران خان کا مقابلہ کرتی ہے‘ سلیکٹڈ پرائم منسٹر کا ٹائٹل بلاول بھٹو نے دیا تھا اور یہ آج تک قائم ہے‘ 2021 کے بجٹ کو پی ٹی آئی ایم ایف بجٹ بھی بلاول بھٹو نے کہا تھا اور یہ بھی خاصا پاپولر ہوا تھا‘ فواد چوہدری نے پی ڈی ایم کو ’’ابو بچائو تحریک‘‘ کا نام دے کر ان دونوں اصطلاحات کو اڑا دیا‘ اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے عمران خان اتنی آسانی سے بیانیہ کیسے بنا لیتے ہیں اور یہ اسے عوام تک کیسے پہنچا لیتے ہیں؟اس کے پیچھے تین کلیے ہیں‘ پہلا کلیہ سوشل میڈیا ہے۔سوشل میڈیا 2000میں آیا تھا لہٰذا 2000 کے بعد پیدا ہونے والے تمام بچے اخبار‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بجائے سوشل میڈیا کی پیداوار ہیں اور یہ بچے اس وقت عمران خان کے ہاتھ میں ہیں‘ میں آج جب بھی باہر نکلتا ہوں تو نوجوان مجھے ٹیلی ویژن اور اخبار کے بجائے فیس بک اور یوٹیوب کی وجہ سے پہچانتے ہیں‘ یہ کالم بھی اخبار کے بجائے سوشل میڈیا پر پڑھتے اور سنتے ہیں‘ نوجوان مجھ سے یہ بھی پوچھتے ہیں آپ کس اخبار میں لکھتے ہیں اور کس چینل پر کام کرتے ہیں‘ مجھے شروع شروع میں حیرت ہوتی تھی۔لیکن پھر ایک دن میرے بیٹے نے میرا ڈیٹا نکال کر سامنے رکھا ۔ اور بتایا‘ لوگ اب آپ کو اخبار یا ٹی وی پر نہیں دیکھتے‘ آپ کو سوشل میڈیا پر ٹریک کر رہے ہیں۔مجھے اس وقت پتا چلا میں اب سوشل میڈیا کے رحم و کرم پر ہوں‘ سیاست دانوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے‘ نوجوان انھیں ٹی وی یا اخبار پر نہیں سوشل میڈیا پر دیکھ اور سن رہے ہیں اور یہ میڈیم اس وقت صرف عمران خان کے ہاتھ میں ہے‘ باقی جماعتوں اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک اور دس کا فرق ہے اور یہ فرق دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے لہٰذا آج کی ڈیجیٹل ورلڈ کا ہریوزر عمران خان کا بیانیہ سن اور مان رہا ہے۔ دوسرا کلیہ عمران خان تقریر کا فن جانتا ہے ‘ یہ پوائنٹس کے بغیر بولتا ہے اور آواز میں انرجی اور لہجے میں جذبہ ہوتا ہے‘ صرف اخلاق سے سوشل میڈیا ٹرولنگ کا مقابلہ کر سکیں گے؟ جی نہیں‘ جس طرح ہاکی کے کھیل میں ہاکی‘ فٹ بال کے کھیل میں فٹ بال اور کرکٹ کے میچ میں بلا استعمال کرنا پڑتا ہے بالکل اسی طرح بیانیے کا مقابلہ بیانیہ ہی کر سکتا ہے اور میدانی حقیقت یہ ہے عمران خان ایک آئینی حکومت کو بھی امپورٹڈ ثابت کر رہا ہے لیکن ایک جمہوری حکومت توشہ خانہ کی گھڑی‘ کف لنکس اور ہار کی چوری کو بھی چوری ثابت نہیں کر پا رہی۔پچھلی حکومت نے پونے چار سال میں ملک کو 22 ہزار ارب روپے کے قرضوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لیکن وہ اس کے باوجود ایمان دار بھی ہے اور مدینہ کی ریاست کا والی بھی اور آپ ازلی مخالفتوں کو بھلا کر ملک کے لیے سامنے آئے ہیں مگر آپ اپنا اخلاص ثابت کر پا رہے ہیں اور نہ مہارت‘ وہ سڑکوں پر کھڑا ہو کر روز تقریر کرتا ہے اور آپ اپنا کام چھوڑ کر اسے جواب دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ عمران خان کے بیانیے کی کام یابی ہے۔دنیا میں 2000تک سچ سچ اور جھوٹ جھوٹ ہوتا تھا لیکن سوشل میڈیا کی ایجاد کے بعد اب سچ وہ سچ ہے جسے لوگ سچ مان لیتے ہیں‘ خواہ وہ کتنا ہی جھوٹ کیوں نہ ہو اور جھوٹ وہ ہے جسے سننے اور دیکھنے والے جھوٹ سمجھتے ہیں خواہ وہ کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ ہو اور عمران خان اس سائنس کا آئن اسٹائن ہے‘میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ وہ لندن میں گوشت کا کاروبار کرتے ہیں‘ یہ مجھے بڑے فخر سے بتا رہے تھے۔ میاں نواز شریف مجھ سے گوشت خریدتے تھے‘ ان کا ملازم ہر دوسرے دن گوشت لے کر جاتا تھا‘۔ میاں صاحب خود بھی کبھی کبھی آ جاتے تھے لیکن میں اب انھیں گوشت نہیں بیچتا‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ یہ غصے سے بولے‘ میرے پاس ان کا ملازم آیا۔میں نے اسے دیکھتے ہی کہا‘ بٹ صاحب آیندہ میری دہلیز پر قدم نہ رکھنا‘ میں کسی چور اور بھگوڑے شخص کو گوشت نہیں بیچتا اور وہ کان لپیٹ کر واپس چلا گیا‘ میں بڑی دیر تک اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر میں نے اس سے پوچھا ’’آپ کو کس نے بتایا میاں نواز شریف چور اور بھگوڑا ہے؟‘‘ جواب میں اس نے عمران خان کی تقریر دہرا دی‘ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن مجھے محسوس ہوا میں نے اگر زیادہ زور دیا تو یہ آیندہ جاوید نام کے کسی شخص کو گوشت نہیں بیچے گا۔بشکریہ نامور کالم نگار جاوید