غریب کا حج

حمید گل کی عمر پچاس سال سے اوپر ہوگئی تھی وہ موٹر مکینک تھا اور دن بھر اپنی ورکشاپ میں گاڑیاں ٹھیک کرنے پر لگارہتا تھا۔ شام کو تھک ہار کر سوجاتا

تھا۔ اس کا بیٹا محمد گل انجینئرنگ پاس کرکے قریب کے بڑے ورکشاپ میں اسسٹنٹ منیجر لگ گیا تھا۔ اس نے اپنے بچے کی اچھی تربیت کی ، نماز ، روزہ کی پابندی کرائی۔اس کا بیٹا صبح کو نماز سے فارغ ہوکر بغیر قرآن پاک پڑھے دفتر نہیں جاتا تھا۔ حمید گل کو حج کرنے کا بڑا ارمان تھا۔ اس نے اپنی معمولی آمدنی سے پیسہ پیسہ جوڑ کر دس ہزارروپے جمع کئے تھے۔ لیکن جب حکومتوں نے حج کا صرفہ بڑھاکر پچاس ہزار روپیہ کردیا ۔ حمید گل کا دل ٹوٹ گیا۔ اس کے حج پر جانے کی امید یں ختم ہوگئیں۔ ایک دن جب وہ مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہا تھا تو اس کی نظر ایک نئے کتبے پر پڑی جس پر حضور اکرم ﷺ کی ایک حدیث شریف لکھی تھی کہ ایک مسلمان کے مرنے کے بعد تین اعمال کا ثواب جاری رہتا ہےایک اس کی صالح اولاد جو اس کے لئے مغفرت کی دعا کرتی ہے، دوسرے کوئی اچھا علم جو دوسروں کو فائدہ پہونچائے اور تیسرے کوئی رفاحی کام جس سے لوگوں کو فائدہ پہونچے ۔ یہ بات اس کے دل میں اترگئی وہ سوچنے لگا اللہ تعالیٰ بھی کتنے کریم ہیں کہ مرنے کے بعد بھی انسان کو اس کے نیک اعمال کا اجر دیتے رہتے ہیں۔ دوسرے دن اس نے اپنی بستی کے غریب محلے کا چکر لگایا اس نے دیکھا کہ وہاں پر پانی کاکنواں دور ہے ۔ عورتیں اور لڑکے گھڑے اور بالٹیاں بھربھر کر دور تک سر پر رکھ کر لے جاتے ہیں۔ کڑی دھوپ ہو یا کپکپاتی سردی یہ محنت ان کو روز کرنی پڑتی ہے۔ حمید گل نے محلے کے بڑوں سے بات کی اور چند دن میں ہی ایک کمپنی کو بلاکر محلے کے بیچ میں ایک بڑا سا نلکا لگوادیا۔

Sharing is caring!

Categories

Comments are closed.