
حکیم لقمان کی وہ بات جو آج تک قابل بھروسہ ہے۔
اپنے نفس پرقدرت ہونا ضروری ہے اگر حکومت کرنا مقصود ہو جس کو اپنے سود و زیاں
کی خبر نہیں وہ حکومت کو خاک کرے گا۔ جن کو اپنا خیال نہیں وہ رعیت کا کیاخیال کریں گے جن کو عیش و عشرت سے تعلق و نسبت ہو وہ آخر بزرگوں کانام ڈبو بیٹھتے ہیں۔ محسن کشی بہت بری ہے اس سے بڑھ کر کوئی عیب نہیں جو انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خداکا بھی شکر بجا نہیں لاتا۔ بے وفا کا کہیں ٹھکانہ نہیں ہوتا اور ایسوں کو وقار بھی نصیب نہیں ہوتا۔ مطلب پرستی اور خود پرستی تعلقات کو کمزور کرتی ہے۔ اگر دوست تنگی میں کام نہ آئے تو فراخی کے وقت ایسے دوست سے کا م نہ لے۔ جنگ میں شریک خواہکوئی بھی کردار ہووہ لڑائی کا حصہ ہوتا ہے۔ بدی کا پھل سوائے بدی کے کچھ نہیں ، بدی کرکے نیکی کی امیدنہ کر۔ کسی کے لیے براسوچ کر اس سے اچھائی کی امید نہ رکھ۔ عمل وہی اچھا ہے جو دائمی کیا جائے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، عبادت کی کثرت کیبجائے بہتر یہ ہے کہ استقامت ہو۔ خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ حاسد جو بھی چال چلتا ہے۔ اس کا تیر اسی کا آکر لگتا ہے۔ حریص کو بھی وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے۔ کسی عورت کے پیچھے جانے کے بجائے کسی شیر کے پیچھے چلے جانا بہتر ہے۔ اس لیے کہ شیر پلٹ آیا تو جان چلی جائے گی مگر عورت پلٹ آئی تو ایمان چلاجائے گا۔ اگر کسی سے ہنسی مذاق کریں جو اس کو لگے اگر وہ اس کا جواب سخت دے تو تمہیں چاہیے کہ اس کا ٹال دو اور برا نہ مانو۔ دوستوں کے ساتھ ہمیشہ بھلائی کریں اور دوستوں کے ساتھ دھوکہ نہ کریں ورنہ جیسا کریں گے ویساہی آپ کے ساتھ کیا جائے گا۔ اگرچہ دشمن جسامت میں چھوٹا تو اس کو کبھی بھی دل میں حقیر مت سمجھنا چاہیے ۔ دشمن او رآگ دونوں ایک جیسی صفت ہے دونوں کو کبھی کم تر نہ سمجھو۔ لڑائی میں جو آگے ہوتے ہیں وہی بدنا م ہوتے ہیں۔