
حضرت شاہ جمال ؒ کے حجرے اور دربار پر پیش آنے والا ایک معجزہ
کچھ ہی دن ہوئے حضرت شاہ جمال کا عرس منعقد ہوا۔ یہ دربار اپنی بے پناہ خوبصورتیوں اور کرامات و اثرات کی وجہ سے ہر طبقۂ فکر کے لوگوں میں
مقبول اور محبوب ہے۔ ان کا خاندان کشمیر میں آباد تھا لیکن کسی وجہ سے اس وقت کے حکمران سے اَن بَن ہونے کی وجہ سے سیالکوٹ ہجرت کی۔نامور خاتون کالم نگار ڈاکٹر صغریٰ صدف اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ شاہ جمال نے اکبر کے دور میں آنکھ کھولی۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی عجیب معاملہ ہے۔ خدا کے نیک بندوں پر بچپن میں ہی کرامتوں کا ظہور شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی انہیں اپنے اندر سے گواہی ملتی ہے اور کبھی باہر سے کوئی انہیں آ کر اس بارے میں آگاہ کرتا ہے کہ ان کا رستہ کوئی اور ہے۔شاہ جمال کو پڑھائی لکھائی سے کوئی خاص رغبت نہ تھی، زیادہ وقت کھیل کود میں صرف کرتے۔ ایک دن گلی میں کھیل رہے تھے کہ ایک درویش شاید جسے خدا نے وسیلہ بنا کر بھیجا ہو وہاں سے گزرا۔ اس نے شاہ جمال کو اشارے سے اپنی طرف بلایا اور کہا کہ آپ کھیل کود میں کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کو تو خدا نے کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔یہ سنتے ہی حضرت شاہ جمال گھر لوٹ گئے اور اگلے چند دنوں بعد ایک مدرسے میں داخل ہو گئے۔ سخت محنت سے دینی علوم میں ایسی مہارت حاصل کی کہ لوگ علمی معاملات کے لئے آپ سےرجوع کرنے لگے۔تقریباً چالیس سال کی عمر میں لاہور تشریف لائے ، اچھرہ میں اس جگہ جہاں آج کل اُن کا دربار ہے ‘ڈیرا لگایا۔ہر ایک کو یہ تلقین کرتے تھے کہ جھوٹ مت بولو، کم مت تولو اور غیبت نہ کرو۔ بہت سارے لوگ جو غیر مسلم تھے اور کم تولتے تھے۔ آپ کی نظرِ کرم کے بعد سونا تولنے والے باٹ استعمال کر نے لگے۔ سہروردیہ اور قادر یہ دونوں سلسلوںسے تعلق تھا۔ ظاہری اور باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ حسن اخلاق کا یہ عالم تھا کہ جو بھی آپ سے ایک دفعہ مل لیتا وہ بار بار آپ کی طرف جھکتا۔جب آپ کے مریدوں نے آپ کو حجرے سے نکالنے کی کوشش کی تو اندر سے آواز آئی جو کچھ ہونا تھا ہو چکا اب پردہ فاش نہ کیا جائے اور حجرے کا دروازہ بند کر کے قبر کا نشان بنا دیا جائے۔ اسی طرح کیا گیا۔