
تحریک انصاف اور کپتان سے وفاداری برقرار رکھنے والے ملتان کے ایم این اے ملک عامر ڈوگر2 روز قبل اپنے حلقے میں پہنچے تو کیا حیران کن واقعہ دیکھنے میں آیا
وفاداریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے اس مرتبہ پھر اس خطہ جنوبی پنجاب کے منتخب نمائندوں نے اپنے اکابرین اور اسلاف کی روایت کو نہ صرف برقرار کو رکھا
مگر ایک حوالے سے اس میں ترقی ہوئی۔ ان کے بڑے بھی وفاداریاں تبدیل کرتے تھے مگر کھل کر سامنے نہیں آتے تھے۔تنقید سے گریز کرتے تھے اور چپ سادھے رکھتے تھے مگر ان کی اگلی نسل نے اس حوالے سے کمال جرأت کا مظاہرہ کیا حتیٰ کہ بعض نے تو ٹیلی ویڑن چینلوں پر بیٹھ کر اچھا خاصا زہر بھی اگلا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ عوام کے غیض و غضب کا کیسے سامنا کرتے ہیں اور باشعور ہو جانے والا خاموش ووٹر کس طرح سے بدلہ لیتا ہے۔ تادمِ تحریر تو وہ سارے کے سارے خاموش اور اپنے اپنے حلقے کے عوام کا سامنا نہیں کر رہے۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے معزول کرنے کے بعدچند دن حفاظتی حراست میں رکھ کر رہا کردیا گیا تھا تو ان کے شاندار استقبال اور عوامی پذیرائی نے حکومتی ایوانوں میں بھونچال برپا کردیا تھا۔ تب ہی اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جرنل ضیاء الحق کو تمام تر طاقت اور اختیارات کے باوجود اپنے اقتدار کی کشتی گرداب میں نظر آئی تو بھٹو کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا پھر ان کی میت ہی قید خانے سے باہر نکلی۔عمران خان اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد جو عوامی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں وہ بھٹو سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دوسری طرف جو اپنی سیاسی وابستگیاں تحریک انصاف سے برقرار رکھنے پر ثابت قدم رہے ان کے حلقوں میں ان کا والہانہ استقبال ہو رہے ہیں۔ملتان سے سابق وزیر مملکت ملک عامر ڈوگر کی ملتان آمد پر چوک کمہارانوالہ سے ان کے گھر تک ہر اہم چوک پر کارکنوں اورشہریوں کی نمایاں تعداد نے اب کا بھرپور استقبال کیا۔اللہ خیر کرے تاریخ خود کو نہ دہرائے۔